۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
تصاویر/ دیدار نوروزی فرمانده نیروی انتظامی با آیت الله العظمی مکارم شیرازی

حوزہ/ امام رضا علیہ السلام نے مامون کی ولی عہدی کو علوم اسلامی کے پھیلانے، دین کی نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کرنے، دین کی حقانیت کو ثابت کرنے، دوسرے ادیان و مذاہب کے پیشواوں کے ساتھ بحث و مباحثہ کا موقع فراہم کرنے کے لیے قبول کیا تھا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قم المقدسہ میں منعقدہ امام رضا علیہ السلام کی سیاسی زندگی پر مبنی کانفرنس کے نام آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی کے پیغام کا متن حسب ذیل ہے:

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمدلله رب العالمین و الصلاة علی رسوله الأمین و آله الطاهرین

لاسیما مولانا ابی الحسن الرضا علیه آلاف صلوات المصلین

سب سے پہلے میں اس کانفرنس کے منتظمین کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو حضرت ثامن الحجج علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام کے نام سے مزین ہے، ایک ایسی کانفرنس جو اس تلاش و کوشش میں ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی زندگی کے ایم اہم پہلو کو بیان کر سکے۔

سیاست امور امامت کا ایک حصہ ہے اور یہ مسئلہ آٹھویں امام علی بن موسی الرضاعلیہ السلام کے دور میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ آج دنیا میں جو صورت حال دیکھی جا رہی ہے اس کے ساتھ سیاست کا تصور کافی حد تک دھوکہ دہی، بے ایمانی، مظلوموں پر ظلم اور ظالموں کے ہاتھ میں طاقت اور دولت جمع کرنے جیسے تصورات سے جڑا ہوا ہے۔ اور یہ صرف ان نااہل سیاستدانوں کے کارنامے ہیں کہ جن میں اخلاقی اقدار کی کمی ہے اور ایسا نہیں ہے کہ مذہب نے خود کو دور کر کے ظالموں کے مفادات کی خدمت کی ہے، جبکہ سیاست کی ایک اور قسم ہے، جو اخلاقی اقدار کی پاسداری، معارف الہی اور اولیائے الہی کے مشورے کے ساتھ ہوتی ہے۔

اس طرح کی سیاست دراصل معارف الہی اور حکمت عقلی پر مبنی لوگوں کی مادی اور روحانی زندگی کی تدبیر اور منصوبہ بندی کرتی ہے، اور دنیاوی کثافتوں اور شیطانی سازشوں سے کوسوں دور اور پاک ہے، ائمہ معصومین علیہم السلام نےاسی سیاست کی طرف لوگوں کو دعوت دی ہے، اور دین و سیاست کے درمیان ایک گہرے رابطے کی جانب اشارہ فرمایا ہے، امام علیہ السلام نے اپنے پیروکاروں بلکہ تمام سیاستدانوں کو بھی اس کی سفارش کی ہے جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ اس سلسلے میں خود نہج البلاغہ میں امیر المومنین علیہ السلام کے اقوال موجود ہیں؛ امام رضا علیہ السلام نے اسی طرح کی سیاست پر عمل کیا اور اپنی مختصر زندگی کے دوران جب آپ جلاوطن ہوئے اور مامون عباسی کی گورنری قبول کرنے پر مجبور ہوئے تو اسی سیاست پر عمل فرمایا۔امام علیہ السلام نے فرمایا: الإمامُ: زِمامُ الدِّینِ و نِظامُ المُسلِمینَ، و صَلاحُ الدُّنیا، و عِزُّ المُؤمِنینَ و بوار الکافرین۔

امام رضا علیہ السلام نے مامون کی ولی عہدی کو علوم اسلامی کے پھیلانے، دین کی نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کرنے، دین کی حقانیت کو ثابت کرنے، دوسرے ادیان و مذاہب کے پیشواوں کے ساتھ بحث و مباحثہ کا موقع فراہم کرنے کے لیے قبول کیا تھا۔ امام علیہ السلام نے خاص کر ایرانیوں کے درمیان مذہب اسلام اور شیعیت کو ثابت اور محکم کرنے کا ارادہ کیا۔

بلاشبہ ایسی سیاست کے زاویوں کی معرفت، اس کے اجزاء، ستون اور نتائج ہی ان شاء اللہ اس کانفرنس کے مقاصد ہیں ۔ ایک بار پھر، میں اس کانفرنس میں شامل تمام اور شرکاء کے لیے کامیابی کی تمنا کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ وہ مذکورہ میدان میں ایک اہم قدم اٹھائیں گے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .